تعلیم و تربیت

  • ۰
  • ۰

پتے کی کہانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پتے کی کہانی

[عزادار حسین]

ہر گزرتے دن کے ساتھ اُس کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑتا جا رہا تھا۔سردیاں ختم ہو رہیں تھیں اور بہار آنے والی تھی، لیکن وہ اپنے حصے کی بہار بہت پہلے گزار چکا تھا۔ وہ بہار کے دن ہی تھے، جب اُس نے رنگ برنگی دنیا میں آنکھ کھولی اور کئی دن حیرت سے اُن رنگوں میں کھویا رہا۔ اُس کے گرد رنگ یوں بکھرے ہوئے تھے، جیسے  ایک میلا لگا ہوا ہو۔ اِن رنگوں سے باہر آنے میں اُسے وقت لگا۔ پھر ایک دن اُسے  ایک مہربان نے بتایا کہ یہ رنگ ہمیشہ نہیں رہیں گے، جلد یہ چلے جائیں گے۔ تمہیں اپنے کام پہ لگ جانا چاہیے۔ اُسے یہ بات بالکل اچھی نہ لگی۔ وہ ہمیشہ اِن رنگوں کو دیکھنا چاہتا تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ یہ رنگ اُس سے جدا ہوں۔ وہ روزانہ گھنٹوں بیٹھ کر اُن رنگوں سے باتیں کرتا۔ پھر ایک دن صبح اُس کی آنکھ کھلی، تو آدھے رنگ جا چکے تھے۔اُسے بہت حیرت ہوئی، یہ کیا ہوا؟۔اُسے لگا کہ شاید کچھ دیر بعد وہ رنگ واپس آ جائیں گے، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ چند دنوں کے اندر اندر باقی رنگ بھی جا چکے تھے۔ رنگوں کے جانے کے بعد وہ اداس ہو گیا۔ ابھی رنگوں کو رخصت ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے، کہ ایک دن صبح  صبح گرم ہوا سے اُس کی آنکھ کھل گئی۔ سورج کی تپش نے سارا ماحول گرما دیا تھا۔ چونکہ پہلی دفعہ اُسے گرم ہوا نے  چھوا تھا، اُسے لگ رہا تھا کہ وہ جل جائے گا۔ وہ دن اُس کی زندگی کا ایک مشکل دن تھا۔ جب سورج غروب ہوا، تو اُس نے سکھ کا سانس لیا۔ اُسے لگا کہ زندگی کے مشکل دن گزر گئے، لیکن یہ خیال اگلی صبح ہی غلط ثابت ہو گیا۔ اُسے پھر لو کے تھپیڑوں نے جگا دیا اور یوں دوبارہ آج بھی سورج کی تپش سے لڑتے لڑتے دن گزارا۔ رات کے وقت وہی مہربان دوبارہ اُس کے پاس آیا اور اُس سے کہا کہ یہ مشکل دن گزر جائیں گے، بہتر ہے تم اپنے کام پر لگ جاؤ۔ اُسے مہربان کی بات بہت پسند آئی اور وہ خوشی خوشی سو گیا۔ اگلے دن اُس مہربان کی بات پوری نہ ہوئی اور آج تو اُسے لگا کہ گرمی سے وہ جل جائے گا۔ اُسے کچھ سمجھ نہیں آئی۔وہ روز رات کو اِس امید پہ سوتا کہ صبح یہ جلانے دینے والی گرمی ختم ہو چکی ہوگی، مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ گرمیوں کے سارے دن اِسی طرح گزرے اور اُس سے کوئی کام نہ ہوا۔ وہ سارا دن گرمی سے لڑتا اور رات سو جاتا۔

پھر ایک دن صبح اٹھا، تو اُسے خوشگوار حیرت ہوئی۔یوں لگتا تھا کہ سورج نے اُس سے دوستی کرلی۔ آج کا دن اُس کا بہت اچھا گزرا۔ سارا دن وہ اٹھکیلیاں کرتا رہا۔ رات سوتے ہوئے اُسے مہربان کی بات یاد آئی تو اُس نے پکا ارادہ کر لیا کہ صبح وہ کام پر لگ جائے گا۔ اگلی صبح ایک چیخ کی آواز نے اُسے جاگنے پر مجبور کر دیا۔ اُس نے ادھ کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ اُس کا ایک ساتھ اِس دنیا سے جدا ہو کر نیچے گر رہا ہے۔ اُس کا چہرے پر موت کی زردی تھی۔ وہ لرزتے لزرتے اپنی اس دنیا کو خدا حافظ کہہ رہا تھا۔ اِسے یقین نہیں آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ وہ سارا دن اداس اداس رہا۔ رات اُسے دیر سے نیند آئی۔ اگلی صبح اُسے پھر چیخیں سنائی دیں۔ وہ ہربڑا کر اٹھ بیٹھا۔ دیکھا تو کئی پرانے دوست اپنوں کو روتا دھوتا چھوڑ کر جا رہے تھے۔ پیچھے رہنے والے اُنہیں بلا رہے تھے، لیکن اُن کی واپسی کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند ہو چکا تھا۔ اِس کا دل درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ وہ کچھ نہیں کر سکا۔ اُسے لگا کہ گرم لو کے تھپیڑوں والے دن تو بہت اچھے تھے۔ کاش وہی واپس آجاتے۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ روزانہ وہ کئی جانے والوں کو دیکھتا، آس پاس سارا باغ ویران ہوگیا تھا۔ وہ صبح سے شام اِسی دکھ کے ساتھ بیٹھا رہتا۔ ایک دن مہربان دوبارہ اُس کے پاس آیا اور اُس سے کہا کہ جانے اورآنے والوں کا سلسلہ ایسے ہی رہے گا۔ تم چاہیے کہ تم کام پر لگ جاؤ۔ اُسے یہ بات بالکل سمجھ نہیں آئی۔ اگلی صبح ٹھنڈ کی وجہ سے اُس کی آنکھ جلدی کھل گئی۔ اُس نے سورج کی طرف دیکھا تو اُسے لگا کہ سورج اُس سے ناراض ہے۔ سارا دن وہ کپکپاتا رہا۔ رات ٹھیک سے سو بھی نہیں سکا۔ اگلی صبح بھی ایسا ہی ہوا۔ آہستہ آہستہ سردی بڑھتی جا رہی تھی۔ اُس نے ڈوبتے سورج کو منانا شروع کر دیا۔ اُسے لگا کہ سورج اُس سے ناراض ہے۔ تھوڑی دیر میں سورج ڈوب گیا۔ وہ رات بھی ایسے ہی گزری۔ صبح ٹھنڈ سے اُس کی آنکھ جلدی کھل گئی۔ اُس نے دوبارہ سورج کی منتیں شروع کر دیں۔ اب یہ اس کا روزانہ کا معمول بن گیا۔ وہ روز صبح اٹھتا اور دن بھر سورج کو مناتا، لیکن سورج اُس سے راضی نہیں ہوا۔ ایک رات مہربان نے پھر اُسے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ سورج ہمیشہ ناراض نہیں رہے گا، تمہیں چاہیے کہ سورج کو منانے کے بجائے کام پر لگ جاؤ۔ اُسے یہ بات بالکل بھی اچھی نہ لگی، کیونکہ سارا دن سورج سے باتیں کرنے سے اُس کا دن اچھا گزر جاتا تھا۔ وہ سورج کی جانب رخ کیے گھنٹوں اُس سے باتیں کرتا۔ کبھی اُسے منانے کے جتن کرتا، کبھی اُس سے کہانی سنانے کی فرمائش کرتا اور کبھی خود ہی اُسے بہار کے قصے سناتا رہتا۔ بہار کو یاد کرنے سے بھی اُسے مزہ آتا اور سردی کا احساس کم ہو جاتا تھا۔ دن یونہی گزرتے جا رہے تھے۔ آہستہ آہستہ سردی کم ہوتی جا رہی تھی۔ ایک دن صبح اُس کی آنکھ کھلی، تو دیکھا کہ بہت سارے ننھے منھے بچوں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ باغ آہستہ آہستہ دوبارہ آباد ہو رہا تھا۔ وہ خوش ہو رہا تھا کہ دوبارہ بہار آ گئی۔ لیکن اگلے ہی دن جب وہ صبح اٹھا، تو اُس کا بدن کپکپا رہا تھا۔ اُسے لگا کہ کچھ دنوں میں وہ ٹھیک ہو جائے گا، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ بہار کے دن گزر رہے تھے اور وہ بہار کے رنگوں کی طرف دیکھنا بھی بھول گیا۔ اُس کے چہرے کا رنگ مرجھا رہا تھا۔ بہار کے آخری دن تھے، جب ایک صبح اُس کی آنکھ کھلی۔ اُس نے دیکھا کہ اُس کے جسم میں ہلنے کی طاقت نہیں ہے۔ وہ سارا دن سورج کی طرف منہ کیے لیٹا رہا۔ اُسے بالکل پتہ نہیں چلا کہ رنگ کب آئے اور کب گئے۔ ایک شب مہربان اُس کے پاس آیا ۔ مہربان نے اُسے بہت پیار سے گود میں لیا۔ اُس کے چہرے پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ اُس کی میٹھی آواز نے اُسے ایک لمحے کے لئے اچھا کر دیا۔ مہربان اُس سے کہہ رہا تھا کہ اب جانے کا وقت ہے۔ بہار  دل کے باہر نہیں ہوتی، بلکہ دل میں ہوتی ہے۔ تم نے دیکھا کہ باہر تو بہار تھی، لیکن تمہارے اندر خزاں کا موسم چل رہا تھا۔ تم باہر کے رنگوں میں کھوئے رہے اور تمہارے اندر کے رنگ آہستہ آہستہ پھیکے پڑتے رہے۔ باہر کے رنگ آنے جانے والے ہوتے ہیں، لیکن اندر صرف ایک دفعہ ہی رنگ آتے ہیں۔ اُنہیں محفوظ رکھنے کے لئے کام کرنا تھا۔یہ رنگ اور مشکلات عارضی تھیں، تم نے سارا وقت انہی میں گزار دیا۔ افسوس کہ اب وقت ختم ہو چکا ہے۔

 

  • عزادار حسین
  • ۰
  • ۰

این متن دومین مطلب آزمایشی من است که به زودی آن را حذف خواهم کرد.

زکات علم، نشر آن است. هر وبلاگ می تواند پایگاهی برای نشر علم و دانش باشد. بهره برداری علمی از وبلاگ ها نقش بسزایی در تولید محتوای مفید فارسی در اینترنت خواهد داشت. انتشار جزوات و متون درسی، یافته های تحقیقی و مقالات علمی از جمله کاربردهای علمی قابل تصور برای ,بلاگ ها است.

همچنین وبلاگ نویسی یکی از موثرترین شیوه های نوین اطلاع رسانی است و در جهان کم نیستند وبلاگ هایی که با رسانه های رسمی خبری رقابت می کنند. در بعد کسب و کار نیز، روز به روز بر تعداد شرکت هایی که اطلاع رسانی محصولات، خدمات و رویدادهای خود را از طریق بلاگ انجام می دهند افزوده می شود.

  • عزادار حسین
  • ۰
  • ۰

این متن اولین مطلب آزمایشی من است که به زودی آن را حذف خواهم کرد.

مرد خردمند هنر پیشه را، عمر دو بایست در این روزگار، تا به یکی تجربه اندوختن، با دگری تجربه بردن به کار!

اگر همه ما تجربیات مفید خود را در اختیار دیگران قرار دهیم همه خواهند توانست با انتخاب ها و تصمیم های درست تر، استفاده بهتری از وقت و عمر خود داشته باشند.

همچنین گاهی هدف از نوشتن ترویج نظرات و دیدگاه های شخصی نویسنده یا ابراز احساسات و عواطف اوست. برخی هم انتشار نظرات خود را فرصتی برای نقد و ارزیابی آن می دانند. البته بدیهی است کسانی که دیدگاه های خود را در قالب هنر بیان می کنند، تاثیر بیشتری بر محیط پیرامون خود می گذارند.

  • عزادار حسین